اب کون کہے تم سے - نظمیں

کتاب: اب کون کہے تم سے
شاعر: زینؔ شکیل
انتساب : دادا مرحوم محمد حسین بٹ کے نام


اب کون کہے تم سے

زینؔ شکیل




انتساب

دادا جان محمد حسین بٹ مرحوم
اور
والد محترم شکیل اختر بٹ مرحوم 
کے نام







٭
اُس کو لکھ دیا ہم نے
سات الگ زبانوں میں
ہاں ہمیں محبت ہے
زینؔ شکیل






میں نے دیکھا ہے بادشاہوں کو
ایک دَر کی گدائیاں کرتے
اور وہ دَر مرے حضورؐ کا ہے

شہنشاہوں کے شہنشاہوں کی
گردنیں بھی یہاں پہ جھکتی ہیں
رحمتوں کا یہیں بسیرا ہے

انؐ کا جو بھی غلام ہو جائے
راہِ سدرہ ہے رہگزر اُس کی
ہاتھ میں لوح اور قلم اُس کے

عربیوں سے کہاں بھلے عجمی
عجمیوں سے کہاں بھلے عربی
یہ بھی سیّدؐ کی مہربانی ہے

آپؐ فرمائیے کرم آقاؐ
ہند کے شہنشاہؒ کے صدقے
ہو سلامت نگاہِ بابا جیؒ

گرتے گرتوں کو تھام لیتے ہیں
ذرہ ذرہ یونہی نہیں کہتا
شاہِ اجمیر یا غریب نوازؒ

فیض خواجہؒ پیا کی چاہت کا
ہم نے پایا نگاہِ باباؒ سے
ہو سلامت دیارِ شلبانڈی

’’سب مساکین پر نگاہِ کرم‘‘
ادنے ادنوں میں زینؔ کی، باباؒ
التجا ہے! حضورؐ کے صدقے


زین شکیل

*******






اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
بس ایک محبت ہے
بے نام اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
بے چین طبیعت ہے
گھمبیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
تیرے ہی تصور سے
دلگیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
میں غم کا مصور ہوں
تصویر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
اک قید ہے زخموں کی
زنجیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
پائی ہے سزا جس کی
تقصیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
ہاتھوں کی لکیروں میں
تقدیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
تم خوابِ محبت ہو
تعبیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
مالک ہوں اکیلا میں
جاگیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
ابرو ہیں کماں جیسے
اور تیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
ان عشق صحیفوں کی
تفسیر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
جلوہ ہے محبت کا
تنویر اُداسی ہے

اب کون کہے تم سے
دنیا میں تمہارے بن
ہر چیز اُداسی ہے


زین شکیل

*******



بولتی ہیں تمہاری آنکھیں بھی

کس لئے تم کلام کرتے ہو
تم فقط مسکرا کے دیکھو ناں
بولتی ہیں تمہاری آنکھیں بھی

موسموں میں اداس رہنے کا
میں نے اک شوق پال رکھا ہے
تم بھی بارش کے ساتھ آ جاؤ

اک جنازے کا حال دیکھا ہے
بین کرتی تھیں حسرتیں ایسے
جانے والا کہیں نہ لوٹ آئے

کیا خبر تھی کہ سوکھ جائے گا
اُس نے اک روز پیڑ پر لکھا
نام میرا، چھپا کے پتوں سے!

اک تخیل اداس رکھتا ہے
ایک چہرہ کمال کرتا ہے
ایک آنسو پناہ دیتا ہے

تم کسی روز لوٹ کر آؤ
میں نے گٹھڑی میں باندھ رکھی ہیں
ساری خوشیاں تمہیں تھما دوں گا

زندگی کا ادھار باقی ہے
سانس گروی ہے پاس لمحوں کے
ضبط بھی کب ہمیں میسر ہے

خواہشوں کے عجیب میلے میں
کس نمائش میں درد ہے کتنا
یہ میں اچھے سے جان لیتا ہوں

تم کئی بار یاد آتے ہو
سکھ کئی بار روٹھ جاتا ہے
میں کئی بار ٹوٹ جاتا ہوں

تیری آنکھوں سے جو نکلتے ہیں
ان ستاروں میں روشنی کم ہے
رات یہ چاند نے کہا مجھ سے!

وہ اکیلی اداس بیٹھی ہے
اور پگلی ہے بے خبر کتنی
سارا عالم اُداس بیٹھا ہے

میں کبھی لوٹ کر نہیں آیا
میں جہاں ہوں وہاں نہیں ہوں میں
تم کہاں ساتھ لے گئے مجھ کو؟

وہ تری دید کو ترستا ہے
وہ کبھی بددعا نہیں دیتا
کس لئے بدگمان ہو اُس سے؟

درد اگر روٹھ کر چلا جائے
اْس کو فوراً منا کے لے آنا
کون ورنہ تمہیں منائے گا؟

غم کا ٹکڑا اُداس بیٹھا تھا
میں نے اْس کو اُٹھا کے ہاتھوں میں
اپنے سینے میں لا سجایا ہے

تم تو کہتے تھے یہ محبت ہے
میں نے آکر قریب سے دیکھا
اس میں وحشت تھی، رنج تھا، دُکھ تھا

میں کبھی دور سے ملوں تجھ کو
تو اگر پاس سے گزر جائے
ربط کیسا بھی ہو مگر ہوتا

وہ جو ساون سے روٹھ آئی تھی
اس لئے ہی بنی نہیں اُس سے
اُس کی آنکھیں عجیب صحرا تھیں


زین شکیل

*******



 اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
ہر بار محبت کی
تقصیر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
لمحوں کے اجڑنے میں
تاخیر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
مرشد ہے اداسی کا!
بے پِیر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
ہر زلف محبت میں
زنجیر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
جوگی کی محبت میں
جاگیر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
بردوں کی کوئی جائز
تعذیر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
سب رنگ میسر ہیں
تصویر نہیں ہوتی

اب کون کہے تم سے
ہر خوابِ محبت کی
تعبیر نہیں ہوتی


زین شکیل

*******

ایسی باتیں کہاں سے لاتے ہو

اْس نے پوچھا کہ ان ستاروں کو
کون تکتا ہے رات دیر تلک
میں یہ بولا کہ ایک شاعر ہے

وہ یہ بولی کہ زین، تم بھی ناں!
ان ستاروں سے کیا ملا تم کو؟
مجھ پہ کیوں شاعری نہیں کرتے؟

میں یہ بولا کہ ان ستاروں سے
ایک گہرا مرا تعلق ہے
میری آنکھوں میں جگمگاتے ہیں

پھر وہ حیران ہو کے کہتی ہے
تیری چھوٹی سی آنکھ نے کیسے
بھر دیا آسماں ستاروں سے

میں یہ بولا کہ تم ستاروں کی
بات کرتی ہو چاند بھی اکثر
آ ٹھہرتا ہے میری آنکھوں میں

اس پہ بولی کہ یہ بتاؤ تم
ایسی باتیں کہاں سے لاتے ہو
دسترس میں ہیں چاند تارے بھی؟

اس کے معصوم سے سوالوں پر
دھیرے دھیرے سے مسکراتا ہوں
اور چپ چاپ دیکھتا ہوں اُسے

پوچھتی ہے کہ بارشوں سے تمہیں
کس لئے اس قدر محبت ہے
کیوں اُداسی میں رنگ بھرتے ہو؟

میں یہ بولا کہ ایک بارش ہی
میری ہمدرد ہے زمانے میں
میری آنکھوں کی لاج رکھتی ہے

میں جو آنسو کسی کے جب دیکھوں
رات بھر نیند ہی نہیں آتی
وہ یہ معصومیت سے کہتی ہے

درد کے پار کے مناظر کچھ
روح پر بوجھ ڈال دیتے ہیں
میں نے اُس کو یہی جواب دیا

وہ یہ بولی کہ خواب میں اکثر
تم کو دیکھوں تو جاگ اُٹھتی ہوں
پھر گزرتی ہے رات رو رو کر

میں نے سوئے فلک نگاہیں کیں
اور ٹھنڈی سی ایک آہ بھری
اور پھر بات کو بدل ڈالا

وہ یہ بولی کہ میرے بعد بھی تم
کیا مجھے اس طرح سے چاہو گے؟
مجھ کو ایسا تو کچھ نہیں لگتا!

میں یہ بولا کہ مجھ سے پہلے تم
اور پھر میرے بعد بھی تم ہی
اور پھر میں تمہارے بعد کہاں؟

وہ یہ بولی کہ سوچ کی کٹیا
تجھ کو سوچوں تو خون روتی ہے
کیوں مجھے یاد آتے رہتے ہو؟

میں یہ بے چارگی سے کہتا ہوں
اس طرح سے نہ خود کو کھو دینا
درد کو کر لیا کرو تسلیم

وہ یہ بولی کہ میرے سائے میں
تیرا سایہ دکھائی دیتا ہے
کیوں اندھیروں میں پھر اکیلی ہوں؟

میں یہ بولا کہ وہم بھی اکثر
یوں ہی چہرے بدل کے ملتا ہے
مجھ کو محسوس کیوں نہیں کرتیں؟

وہ یہ بولی کہ آج کنگن نے
تیرے بارے میں کچھ نہیں پوچھا
میں نے زیور سبھی اُتار دیے

میں یہ بولا کہ پھول کا گجرا
کس لیے آج میں نے بھیجا تھا
کیا ضروری تھا بولتا کنگن؟

مجھ سے کہتی ہے آج میں خوش ہوں
سارا گھر ہی سجا لیا میں نے
منتظر تھی ناں، اور کیا کرتی؟

میں یہ بولا کہ ٹھیک ہے لیکن
کب تلک یوں مجھے ملو گی تم؟
کب تلک یوں ہی خوش رہو گی تم؟

وہ یہ بولی جھڑی ہے ساون کی
آج تو بھیگ بھیگ جاؤں گی
تم کبھی بارشوں میں بھیگے ہو؟

میں یہ بولا کہ روز راتوں کو!
سارے احساس بھیگ جاتے ہیں
ابر برسے یا آنکھ سے برسے

وہ یہ بولی کہ کوئی بات کرو
چاہتوں کے نصاب کے بارے
دوریوں کے عذاب کے بارے

اس پہ چپ چاپ دیکھ کر اُس کو
میں فقط سوچتا ہی رہتا ہوں
کون سی بات کب کروں اس سے

وہ یہ بولی کہ درد سے تم کو
بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا
کس لئے پھر اُداس رہتے ہو

میں یہ بولا کہ بولتا کب ہوں
درد بس آ کے بیٹھ جاتا ہے
اور سُنتا ہوں دیر تک اُس کو

وہ یہ بولی کہ بولتے رہنا
مجھ کو اتنا عجیب لگتا ہے
تم کوئی بات کیوں نہیں کرتے

میں یہ بولا کہ لب ہلا دینا
کیا یہی بولنے سے مطلب ہے
تم سنو، گر تمہیں سنائی دے!

تم مجھے کیوں سمجھ نہیں آتے؟
جاؤ اب بولتی نہیں میں بھی
ہو کے وحشت زدہ وہ کہتی ہے

پھر وہ چہرے کو موڑ لیتی ہے
اور یوں دور تک مرے اندر
آرزو بین کرنے لگتی ہے

زین شکیل

*******

اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
صدیوں کی اداسی ہے
ہر بار چلے آؤ

اب کون کہے تم سے
لمحوں کی گزارش ہے
سو بار چلے آؤ

اب کون کہے تم سے
یہ آنکھ برستی ہے
اک بار چلے آؤ

زین شکیل



*******

میں بناتا ہوں درد کا چہرہ

سارے موسم یہاں تھے جلدی میں
آپ ہی دیر سے یہاں لوٹے
میں تو اب تک بھی انتظار میں ہوں

کس لیے آفتاب کو دیکھا
وہ تو بینائیوں کا دشمن ہے
نا ہی دیکھیں تو راس رہتا ہے

مصلحت ہو نہ جب تلک کوئی
تب تلک یوں کسی کے جانے سے
کوئی جیتا کوئی نہیں مرتا

ایک میت کے پاس لوگوں کو
بین کرتے ہوئے سنا میں نے
اب تو مرنے سے خوف آتا ہے

میرے بارے میں درد پوچھے تو
اس سے کہنا کہ تیرے جیسا ہی
پھرتا رہتا ہے رات گلیوں میں

ایک آواز ہے پرانی سی
گیت گاتی ہے جو امیدوں کے
کوئی محروم ہے زمانوں سے

پیڑ سوکھا ہوا تو ہے لیکن
گھر بنائے ہیں کچھ پرندوں نے
اس لیے ہے ہرا بھرا احساس

ضبط کہنے لگا ہے رو رو کر
میری سانسوں پہ پٹیاں باندھو
میرا سینا ادھڑتا جاتا ہے

میں بناتا ہوں درد کا چہرہ
اور پھر اُس میں رنگ بھرتا ہوں
اور پھر کھل کے ہنستا رہتا ہوں

لوگ بولے کہ زین کیا اب بھی،
ایک ہی شخص ہے متاعِ جاں؟
میں بھی ہاں میں ہی سر ہلاتا ہوں!

بے سبب روشنی نہیں ہوتی
بے قراری کا بوجھ بڑھ جائے
بے خودی کا یقین کر لینا

کتنے آزار ہیں زمانے میں
تم کسی ایک کو بھی اپنا لو
دل کی بولی سمجھ میں آئے گی

لوگ مظلومیت سمجھتے ہیں
کوئی محروم ہے محبت سے
میں تو ظالم اسے سمجھتا ہوں

راہ میں آ گیا سراب مگر
تیرا چہرہ مرے دھیان میں تھا
اس لئے میں بھلا کہاں رکتا

پیڑ کہنے لگا مرا سایہ
میرے ہی واسطے مصیبت ہے
کیا قیامت کا وقت ہے اُس پر

خواہشوں سے ہزار بہتر تھا
حسرتوں سے گریز کر لیتے
درد رہتا نہ اتنی مشکل میں

حادثوں نے سجا دیا ہم کو
ہم کہاں یوں حسین تھے پہلے
پھر رہے ہیں لئے نشاں غم کے

بات جب بات سے نکل آئے
پھر اسے کون روک سکتا ہے
کچھ بہانے تو ساتھ رہتے ہیں

زین شکیل



*******

نین پکاریں سانول

رات نہ بیتے بیرین
یاد اداسی گھولے
نین پکاریں سانول

خواب سبھی چلائیں
روٹھ گئیں تعبیریں
نین پکاریں سانول

ریت کا دریا دیکھا
پیاس بہائے آنسو
نین پکاریں سانول

بیت چلا ہے جیون
ہار چلی ہیں سانسیں
نین پکاریں سانول

راز محبت والے
کون کسے بتلائے
نین پکاریں سانول

چیخ اٹھے خاموشی
باتیں روگ لگائیں
نین پکاریں سانول

دور کھڑی شہزادی
من مندر مہکائے
نین پکاریں سانول

ہجر زدہ سی کوئل
بولے غم کی بولی
نین پکاریں سانول

کون سنے گا تجھ بن
حال ہمارا آ کر
نین پکاریں سانول

یاد کے کنکر پھینکے
جھیل کی چپ نہ ٹوٹی
نین پکاریں سانول

دل میں پھیلا جنگل
یاد میں غم کا صحرا
نین پکاریں سانول

ہار گئی ہے داسی
راجہ کون منائے
نین پکاریں سانول

تھل ہے دل کی نگری
بیڑی کیسے گزرے
نین پکاریں سانول

جیون ایک اداسی
روح ترے بن پیاسی
نین پکاریں سانول

زین شکیل



*******

’’اور تم یاد آ گئے پھر سے‘‘

آج میں نے سیاہ کپڑوں کو
زیب تن کر کے آئینہ دیکھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

چوڑیوں کی دکان پر میں نے
چوڑیاں لال رنگ کی دیکھیں
اور تم یاد آ گئے پھر سے!


آج میں کس طرح کا دکھتی ہوں
میں نے سوچا کہ آئینہ دیکھوں
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج کالج میں ایک لڑکی نے
اک تمہاری غزل سنائی تھی
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

تیری یادوں سے تنگ آ کر یہ
میں نے سوچا کہ بھول جاتی ہوں
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج میں شام کو گئی چھت پر
دور سے چاند نے مجھے دیکھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

میں نے دیکھا کئی ستاروں کو
ایک دوجے سے چونچلیں کرتے
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

خواب میں آج ڈر گئی تھی میں
اور کمرہ، اندھیرا، تنہائی
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج موم بتیاں جلائیں تھیں
ہاتھ تھوڑا سا جل گیا میرا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج میں نے کتاب بھی دیکھی
سب ریاضی کے حل، سوال کیے
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج اک راستے سے گزری میں
ایک سہما ہوا سا رستہ تھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج گھڑیال رُک گیا گھر کا
میں نے دیوار سے اُتارا تھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج گھر میں بڑی اداسی تھی
میں نے جی بھر کے اُس سے باتیں کیں
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

میرے اندر سے کوئی یہ بولا
لوگ مرتے نہیں جدائی میں
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

میرے چہرے پہ جب نمی پھیلی
میں یہ سمجھی ہوا بھی روتی ہے
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

شام کے بعد رات آ پہنچی
رات گزری تو دن نکل آیا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

دن گیا ہی کہ شام پھر آئی
شام نے رات میں بدلنا تھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

میں نے سوچا کہ اپنے ہاتھوں کو
رنگ ڈالوں میں آج مہندی سے
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

آج بالوں کے خم نکالے تھے
اور کچھ بال ٹوٹ کر بکھرے
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

ایک پودا ہے میرے آنگن میں
آج پودے پہ ایک پھول آیا
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

لوگ خائف تھے مسکرانے سے
میں تو ایسے میں مسکرا بیٹھی
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

خواہشوں نے مجھے ستایا ہے
حسرتوں نے مجھے رُلایا ہے
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

مجھ پہ آنکھوں نے آج طنز کیا
ہم بھلا دید بن ہیں کس کاری
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

میری آنکھیں ہیں لال رو رو کر
میں ابھی ہی سنبھل کے بیٹھی تھی
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

میں ہوں مصروف ایک مدت سے
ایک بس تم کو یاد کرنے میں
اور تم یاد آ گئے پھر سے!

تیری یادوں سے اب فرار نہیں
اس قدر مجھ کو یاد آ آ کر
زینؔ تم یاد ہو گئے مجھ کو

زین شکیل



*******

تم مرے درد کی ریاضت ہو

تم مرے درد کی ریاضت ہو
تم مرے ضبط کی عمارت ہو
تم مری آخری محبت ہو

تم توکل تمہی توصل ہو
تم توجہ تمہی تغافل ہو
تم توقع تمہی تسلی ہو

تم کہاں ہو کہاں نہیں ہو تم
تم یقیں ہو گماں نہیں ہو تم
تم ہمارے ہو! کیا نہیں ہو تم؟

تم مرے گیت کی زباں ٹھہرے
تم مرے درد کی فغاں ٹھہرے
تم جہاں بھی گئے نشاں ٹھہرے

تم تپوبَن ہو میری دنیا کا
تم تپسیا مری محبت کی
تم تحیّر مری بصارت کا

تم کبھی مل کے کھو بھی سکتی ہو
تم کبھی چھپ کے رو بھی سکتی ہو
تم تو راتوں میں سو بھی سکتی ہو

تم پریشان اب نہیں ہو، ناں؟
تم تو حیران اب نہیں ہو، ناں؟
تم مری جان اب نہیں ہو، ناں؟

تم تو یوں بے پناہ تھے مجھ میں
تم تھے پھیلے سبھی مناظر میں
تم کو تسلیم کر لیا میں نے

تم محبت کرو تو بہتر ہے
تم کسے راس آؤ گے بولو
تم ہمارے رہو تو بہتر ہے

تم تمازت سے ڈر گئے کیونکر
تم تپش تھے ہمارے جذبوں کی
تم تخیل ہماری سانسوں کا

تم ہی تصویر تم تصور بھی
تم ہی تدبیر تم مدبر بھی
تم ہی تاثیر تم تاثر بھی

تم مری ہر خوشی مرا غم بھی
تم مرے آنسوؤں کا موسم بھی
تم کسی شب کی زلفِ برہم بھی

تم سے تم تک پہنچ نہیں سکتا
تم مگر پھر بھی پاس رہتے ہو
تم مجھے پھر بھی راس رہتے ہو

زین شکیل



*******

’’اور تم یاد آ گئے پھر سے‘‘

ایک جنگل بھری اداسی کا
میں نے کل رات خواب میں دیکھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے

میں نے دیکھا تھا درد پتوں پر
جیسے پت جھڑ کا سوگ کرتے ہوں
اور تم یاد آ گئے پھر سے

ایک اندھے مزار کے اندر
ہجر کو دفن کر دیا میں نے
اور تم یاد آ گئے پھر سے

روگ ہنسنے لگے اداسی پر
درد نے تالیاں بجا ڈالیں
اور تم یاد آ گئے پھر سے

اک پرندہ جو ڈار سے بچھڑا
میری چھت پر اداس بیٹھا تھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے

اب تو ہر بات بھول جاتا ہوں
اب تو کچھ یاد ہی نہیں رہتا
اور تم یاد آ گئے پھر سے

اب تمہیں یاد ہی نہیں کرنا
آج یہ فیصلہ کیا ہم نے
اور تم یاد آ گئے پھر سے

زین شکیل



*******

کدی آ مل یار پیاریا

میں بے چین طبیعت والی
عمروں سے بے آس
کدی آ مل یار پیاریا

ہجر کی سولی چڑھ گئی میں
میرے سپنے ہو گئے دفن
کدی آ مل یار پیاریا

کوئل رو رو بین کرے 
مرا باغ میں لگے نہ من
کدی آ مل یار پیاریا

پیتم رستہ بھول گئے
مرے نیناں زار قطار
کدی آ مل یار پیاریا

زین شکیل



*******

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
گر اجالوں میں آنکھ لگ جائے
پھر اندھیرے بہت ستاتے ہیں

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
جسم جب دل کے ساتھ مل جائے
روح سے روح مل نہیں سکتی

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
خواب دن میں اگر سجائیں تو
رات کو نیند روٹھ جاتی ہے

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
گر اُداسی سوال کر لے تو
آنکھ رو کر جواب دیتی ہے

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
ایک ہی نام گر لیا جائے
پھر کئی درد آن مِلتے ہیں

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
چھوڑ جانے کا حوصلہ ہو تو
روٹھ جانے کی حد نہیں ہوتی

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
گر کوئی شہر چھوڑ جائے تو
سوگ کرتی ہیں رات بھر گلیاں

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
کوئی آنکھوں میں آن ٹھہرے تو
نیند آنکھوں سے دور رہتی ہے

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
ہجر والے کمال کرتے ہیں
شہر والے سوال کرتے ہیں

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
جب پرندے اداس ہو جائیں
پیڑ خاموش ہو ہی جاتے ہیں

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
درد نبضیں اُدھیڑ کر رکھ دے
ضبط کو راستہ نہیں ملتا

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
دل اگر رو پڑے تو چپ رہنا
آنکھ کی بات اور ہوتی ہے

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
پھیل جائے اگر خیال کا دُکھ
یاد کرنا کسی سوال کا دُکھ

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
تم اگر مجھ سے ملنے آؤ تو
واپسی کا خیال مت لانا

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
ایک لمحہ وصال ممکن ہو
ہجر کا بھی خیال مت لانا

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
تم تو خود لاجواب ہو، دیکھو
ساتھ کوئی سوال مت لانا

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
میں ابھی درد کے عروج پہ ہوں
تم بھی اس کا زوال مت لانا

میں نے یہ بھی کہا تو تھا تم سے
میرے اور اپنے درمیان کبھی
دوسری کوئی بات مت لانا

زین شکیل



*******

اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
جو راکھ ہوئے غم کی
وہ لوگ سنہرے تھے

اب کون کہے تم سے
اس رات کی محفل میں
بس درد کے پہرے تھے

اب کون کہے تم سے
تحفے میں ملے ہم کو
وہ زخم ہی گہرے تھے

اب کون کہے تم سے
اک بار ہی مل لیتے
ترے شہر میں ٹھہرے تھے

اب کون کہے تم سے
ہم آنکھ سے گونگے تھے
ہم آنکھ سے بہرے تھے

زین شکیل



*******

وہ یہ کہتی ہے روٹھ کر مجھ سے

وہ یہ کہتی ہے روٹھ کر مجھ سے
یہ اُداسی مجھے ستاتی گر
تو میں شاید تمہیں منا لیتی

گر درختوں سے میرے بارے میں
بات تم نے کبھی نہ کی ہوتی
تو بھی شاید تمہیں مناتی میں

گر سمندر تمہاری آنکھوں کا
میرا چہرہ مجھے نہ دکھلاتا
سوچ لیتی تمہیں منانے کا

گر پہاڑوں میں تم نہیں جاتے
نام میرا نہ لوٹ کر آتا
تو بھی شاید تمہیں منا لاتی

وہ یہ کہتی ہے روٹھ کر مجھ سے
تم اگر سیکھتے منا لینا
لازمی تھا کہ پھر مناتی میں

زین شکیل



*******

وہ یہ بولی کہ آج ساون ہے

وہ یہ بولی کہ آج ساون ہے
ابر، برسات، کوکِ بانسریا
سارا عالم اداس ہے تم بن

آسمان و زمین بھی چُپ ہیں
اور مناظر خموش ہیں سارے
رات بھی بے قرار ہے تم بن

بحر بھی، لفظ بھی، تخیل بھی
ساری نظموں کا اک تسلسل بھی
شاعری بھی اداس ہے تم بن

خواب، بستر بھی، نیند بھی، شب بھی
رات کا اک طویل منظر بھی
ہر ستارہ اداس ہے تم بن

کاش تم لوٹ کر چلے آؤ
پھر یہ آئے گی اک برس کے بعد
دیکھو ساون کی آج پہلی ہے

زین شکیل



*******

درد رخصت نہیں ہوا کرتے

لوٹ جاتی ہے روح بھی واپس
ضبط رہتا نہیں سدا لیکن 
درد رخصت نہیں ہوا کرتے

کون سی رات رات ہوتی ہے
کون سی بات بات ہوتی ہے
کون سے اشک اشک ہوتے ہیں

ایک دیوی، حسیں اداسی کی
من کے مندر میں آن بیٹھی ہے
اور آنکھوں میں عکس ہے اس کا

ہجر کی سانس تھم گئی ہوتی
تم کسی اور راہ سے آتے
ہم کوئی اور بات کر لیتے

یاد آنے میں اتنی دقت کیوں؟
پاس آنے میں یہ مسائل کیا؟
سنگ رہنا کوئی مصیبت کیوں؟

وسعتِ درد، وسعتِ راحت
رشتہِ ازدواج ہے ان میں
دونوں اجداد ہیں اداسی کے

درد تو موجہِ عبادت ہے
درد لہجے کی اک وضاحت ہے
درد گھڑیال، درد ساعت ہے

زین شکیل



*******

میرے بارے میں سوچتی ہو تم

اتنی فرصت کسے میسر ہے
پھر بھی یہ حوصلہ تمہارا ہے
میرے بارے میں سوچتی ہو تم

زندگی اس لیے بھی پیاری ہے
میری ہر سانس تم سے وابسطہ
زندگی سے جڑی ہوئی ہو تم

بین کرتی ہیں دھڑکنیں جس پر
میرے اندر مزار ہے شاید
میرے اندر ہی مر گئی ہو تم

خواب ہو یا سراب ہو کوئی
رتجگوں سے جو رات کی ٹھہری
کس قدر گہری دوستی ہو تم

حشر برپا ہے اب کہیں مجھ میں
اب مجھے خود پہ اختیار نہیں
میرے اندر بکھر گئی ہو تم

زین شکیل



*******

ان خواب رسیدہ آنکھوں میں

ان خواب رسیدہ آنکھوں میں
تعبیر کے گنجل کھول بھی دو
کب خواب فنا ہو جاتے ہیں

یہ خواب زدہ بے کار آنکھیں
دیدار بنا کس کاری ہیں
تعبیر مکمل کر جاؤ

ان خواب رسیدہ آنکھوں میں
ساون کی جھڑی لگ جاتی ہے
جب یاد ہمیں تم آتے ہو

ان خواب رسیدہ آنکھوں کا
تم ایک سہارا ہو ایسا
ہم جس کے سہارے جیتے ہیں

ان خواب زدہ سی آنکھوں کے
بارے میں تمہیں بتلانا ہے
اک شام ہمارے نام کرو

ان خواب زدہ سی آنکھوں نے
عجلت میں تمہیں جب دیکھا تھا
فرصت نہ ملی پھر خوابوں سے

ان خواب رسیدہ آنکھوں کے
قصے ہیں بہت مشہور مگر
ہر بات میں ذات تمہاری ہے

ان خواب رسیدہ آنکھوں میں
یادوں کے گھروندے ہیں جن کی
ہر یاد میں ذات تمہاری ہے

ان خواب زدہ سی آنکھوں کا
بس ایک سہارا ہو ناں تم؟
اک خواب ادھورا ہو ناں تم؟

زین شکیل



*******

اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
ہم آس لگا بیٹھے
انکار نہ کر جانا

اب کون کہے تم سے
صدیوں کی ریاضت کو
بے کار نہ کر جانا

اب کون کہے تم سے
تعمیر ہوں میں تیری
مسمار نہ کر جانا

اب کون کہے تم سے
اس بار کیا رخصت
ہر بار نہ کر جانا

اب کون کہے تم سے
تم میرے مسیحا ہو
بیمار نہ کر جانا

اب کون کہے تم سے
تم نیند میں شامل ہو
بیدار نہ کر جانا

اب کون کہے تم سے
تم میری محبت کا
بیوپار نہ کر جانا

زین شکیل



*******

کاش تم بخت میں کہیں لکھتیں

وہ یہ بولی کہ شام ڈھلتے ہی
چاند تارے اداس کرتے ہیں
اور تم یاد آنے لگتے ہو

میں یہ بولا کہ چاند تاروں سے
میری کچھ خاص اب نہیں بنتی
دن میں فرصت نکال لینا تم

وہ یہ بولی کہ آج مہندی سے
نام لکھا ترا ہتھیلی پر
اور خوشبو نے راز کھول دیا

میں یہ بولا کہ وقت ڈھلتا ہے
رنگ مہندی کا ماند پڑتا ہے
کاش تم بخت میں کہیں لکھتیں

زین شکیل



*******

اک شام ہمارے نام کرو

آغاز کرو، انجام کرو
ان آنکھوں کو پیغام کرو
اک شام ہمارے نام کرو

آنکھوں سے پرے اک عالم ہے
سانسوں سے پرے اک وحشت ہے
خوابوں سےپرے کچھ بھی تو نہیں

اقرار جہاں پر ہونا ہو
انکار کہاں ہو سکتا ہے
یہ ریت ہے ایک محبت کی

آزار ہیں جو دنیا بھر کے
اک دکھ میں چھپائے بیٹھے ہیں
کچھ لوگ اداسی بُنتے ہیں

ہم عرش ریاضت کر کر کے
ہر ابر کا رستہ جان گئے
اب آنکھ برستی رہتی ہے

ہم درد ریاضت کرتے تھے
ہر دکھتی رگ کو دیکھ لیا
اب ضبط پریشاں رہتا ہے

ہم ہجر ریاضت کر بیٹھے
اب خود سے روز بچھڑتے ہیں
اب وصل بھی طعنے دیتا ہے

ہم دشت ہوئے، ہم خاک ہوئے
ہم ریت کی اک پوشاک ہوئے
اب روز بکھرتے رہتے ہیں

سب جذبوں کو بے نام کرو
ان آنکھوں میں آرام کرو
اک شام ہمارے نام کرو

زین شکیل



*******

اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
تم رات میں لوٹ آتے
اور رات بدل جاتی

اب کون کہے تم سے
تم بات تو کر لیتے
ہر بات بدل جاتی

اب کون کہے تم سے
میں جذب تمہیں کرتا
اور ذات بدل جاتی

زین شکیل



*******

اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
میں یاد اگر آؤں
کچھ دیپ جلا لینا

اب کون کہے تم سے
سوکھے ہوئے پیڑوں کو
ہر بات سنا لینا

اب کون کہے تم سے
اجڑے ہوئے لوگوں سے
خاموش دعا لینا

اب کون کہے تم سے
بے کار اذیت میں
مت خود کو گنوا لینا

اب کون کہے تم سے
کوئی رو کے منائے تو
سینے سے لگا لینا

اب کون کہے تم سے
بے عیب نہیں کوئی
تم عیب چھپا لینا

زین شکیل



*******



٭
اُس کو لکھ دیا ہم نے
سات الگ زبانوں میں
ہاں ہمیں محبت ہے


*******
(اختتام)
*******



کتاب:  اب کون کہے تم سے
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial




No comments:

Post a Comment